آج 7 دسمبر 2020 ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بہاولپور کے جج مسٹر جسٹس طارق عباسی نے سینئر وکیل جناب حافظ عبدالرشید صاحب ایڈووکیٹ کو ایک حبس بیجا کے کیس میں انتہائی نازیبا زبان استعمال کرتے ھوئے کہا کہ " وکلاء کی نا تو کوئی ماں ھے نا بہن اور نا بیٹی" جس پر فوری ردعمل اور احتجاج کرتے ہوئے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بہاولپور نے کل مورخہ 8 دسمبر 2020 کو مکمل ہڑتال کا اعلان کیا ہے
ہائی کورٹ میں دفعہ 491 ضابطہ فوجداری کے تحت رٹ پٹیشن حبس بے جا یا غیر قانونی قید میں کسی شخص کی رہائی کے لیے دائر کی جاتی ہے.
عموماً جب کوئی لڑکی اپنی مرضی اور پسند سے شادی کر لیتی ہے اور اگر لڑکی والدین کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اُسے قابو کر لیتے ہیں. جس پر لڑکی کا خاوند سیشن کورٹ یا ہائی کورٹ میں لڑکی کی برآمدگی کے لیے 491 ض ف کے تحت پٹیشن دائر کر دیتے ہیں اور ایسے مقدمہ کی سماعت کے دوران کبھی کبھار کوئی جذباتی جج قانون کے بجائے مروجہ سماجی اخلاقیات کے پیش نظر تلخ اور غیر اخلاقی ریمارکس کونسل بارے بھی پاس کر دیتا ہے.
اس بارے میں میری رائے یہی ہے کہ جج قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہے. اگر کسی جج کو لگتا ہے کہ لڑکی نے گھر سے بھاگ کر شادی کر کے کوئی غیر اخلاقی اقدام کیا ہے اور اپنے والدین کی عزت کو بٹہ لگایا ہے تو ایسے جج صاحبان دفعہ 491 کو غیر قانونی غیر آئینی دفعہ قرار دیتے ہوئے حکومت سے قانون میں ترمیم اور دفعہ 491 ختم کرنے کا مطالبہ کریں نا کہ کونسل پر ذاتی حملے کریں. اگر قانون لڑکی کو اپنی مرضی سے شادی کا حق دیتا ہے تو کسی جج کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اخلاقیات کا علمبردار بن کر معزز وکلاء پر نامناسب جملے کسے. آپ میں ہمت ہے تو قانون میں تبدیلی کروائیں. ہماری ذات پر حملے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔۔ وکالاء